Responsive Menu
Add more content here...

ہمارا تعارف و ہدف

ہمارا تعلق تحریکِ عظمتِ اسلام سے ہے۔ جنرل (ر) ظہیر الاسلام عباسی مرحوم جنکا تعلق راولپنڈی سے تھا‘ اس تحریک کے بنیادی امیر تھے۔ ان کی وفات کے بعد تحریک کے امیر چودھری رحمت علی‘ بابائے خلافت تھے‘ جن کا تعلق لاہور سے تھا اور ان کی وفات کے بعد تحریک کے موجودہ امیر ڈاکٹر نجم الدین ہیں جن کا تعلق اوکاڑہ سے ہے اور جن کا Cell No. 0301 – 7339377 ہے۔ رواں دواں سیاست میں ملوث سیاسی جماعتوں اور مذہبی فرقوں سے ہٹ کر تحریکِ عظمتِ اسلام ایک انوکھی تحریک ہے۔ انوکھی اس لیے کہ اس کا ہدف کرسی‘ عہدہ یا ووٹ حاصل کرنا نہیں بلکہ اسی طرح کا نظام برپا کرنا ہے جو رسول اللہﷺ اور صحابہؓ نے دورِ نبوت میں برپا کیا۔ جس طرح آج ہمارے ہاں قرآن و سنت سے ماوراء ایک فرسودہ‘ بیہودہ اور پراگندہ نظامِ زندگی رائج ہے‘ اسی طرح دورِ نبوت کے آغاز میں تھا۔ اللہ کے رسولﷺ اور ان کے ساتھیوںؓ نے اس سے سمجھوتہ نہ کیا‘ اسے بدلا۔ چنانچہ رسولﷺ جب دنیا میں تشریف لائے تو عرب کی سرزمین پر دورِ جہالت جاری و ساری تھا اور جب دنیا سے تشریف لے گئے تو خلافتِ راشدہ کا دور دورہ تھا۔ رسولﷺ کی پیروی ہر مسلمان کا فرض ہے۔ اسی پیروی کی روشنی میں ہم‘ کارکنانِ تحریکِ عظمتِ اسلام سچے اور مخلص مسلمان کی طرح ہمارے ہاں آج کے رائج دورِ جہالت کو دورِ خلافت میں بدلنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ پہلے قدم کے طور پر ہم 73ء کے آئینِ پاکستان کی بجائے قرآن و سنت کو ہی آئینِ پاکستان بنانے کے داعی ہیں۔ اس تبدیلی کا لانا ناگزیر ہے اس لیے کہ قرآن و سنت کے نفاذ سے ہی ہمارے ہاں اسلامی نظام قائم ہو سکتا ہے‘ اپنے ہاتھوں لکھے آئین سے نہ دورِ خلافتِ راشدہ میں اسلامی نظام قائم ہو سکتا تھا نہ آج ہو سکتا ہے۔ جیسے کہ اوپر ذکر ہوا جہالتی نظام میں نہ ہمارا ہدف کرسی ہے‘ نہ عہدہ اور نہ ووٹ۔ یہ رسولﷺ کی پیروی ہی میں ہے۔ آپﷺ کو مشرکینِ مکہ نے اپنا سردار اور کئی دوسری مراعات کی پیشکش کی لیکن آپﷺ نے اُس کو اِس لیے ٹھکرا دیا کہ انقلاب لانے والے اگر خود اس نظام کا حصہ بن جائیں جسے انہوں نے بدلنا ہے تو وہ نظام کو نہیں بدل سکتے‘ نظام ان کو بدل دیتا ہے۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ اسلامی نظام لانے کا داعیہ لے کر رواں دواں باطل نظام کا حصہ بنے۔ وہ نظام کو تو نہ بدل پائے نظام نے ان کو بدل دیا۔ آج وہ جمہوریت‘ جمہوریت کی رٹ لگا رہے ہیں۔ ہمیں عہدے کی اس لیے طلب نہیں کہ اللہ کے رسولﷺ کا فرمان ہے کہ ہم نہیں دیتے عہدہ اسے جو خود اس کی مانگ اور تانگ کرے۔ ہمیں ووٹ کی حاجت نہیں اس لیے کہ اسلام اس کی نفی کرتا ہے۔ کسی خلیفۂ راشد نے ووٹ حاصل کرنے کیلئے تگ و دو (Election Compaign) نہیں کی۔ باطل نظام میں تو ووٹ اس کی تقویت کا باعث بنتا ہے لہٰذا ہمارے نزدیک ’’گناہِ جاریہ‘‘ ہے۔ ہماری درخواست ہے کہ آپ بھی تحریکِ عظمتِ اسلام میں باقاعدہ شامل ہو کر مسنون زندگی گزاریں یعنی رسول اللہﷺ کی پیروی میں نظامِ باطل کو نظامِ خلافت میں بدلنے کا مسنون کام کریں۔ِ ہمارے تمام مسائل کا حل قرآن و سنت کے نظام میں ہے۔